جھوٹی خبریں اور تقدیسِ صحافت پر واویلا
Reading Time: 4 minutesمطیع اللہ جان نے چیف جسٹس فائز عیسی کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری افواہوں کے بازار پر ایک عدد ٹویٹ داغی ہے۔ اس پوری ٹویٹ میں مطیع کے سب سے زیادہ دلچسپ دو الفاظ “ایک خبر” رہے۔
یہاں ایک gist مطیع اللہ جان کی ہے اور دوسری اس پورے رویے کی جسے مطیع “ایک خبر” کہہ کر ہلکا کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ کوشش جانی بہرحال ناکام ہی ہے۔ اس “ایک خبر” جیسی لاتعداد خبروں کے اوپر صدیق جان اور صابر شاکر عمران ریاض جیسوں کا کیرئیر کھڑا ہے۔
ڈالر اور پاؤنڈ کے علاوہ ریال اور یورو پر مطیع اللہ جان جیسے گنے چنے کھرے صحافیوں کی گزشتہ ٹاؤٹ صحافیوں کے شان و شوکت پر مبنی بیانات کی نسبت ان کی موجودہ مالی حالت خود گواہی دیتی ہے۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ عمران ریاض نما صحافی یا لندن کے میجر یا پتہ نہیں کیپٹن عادل راجوں نے اسی صحافت کے نام پر ڈالر کمائے ہیں۔ کون کامران خان کو نہیں جانتا جو کسی دور میں چھ ہزار روپے ماہانہ کے عوض صحافت ہی کے نام پرآئی ایس آئی کا ٹٹو بنا رہا۔ یہ بکاؤ صحافی ہی ہیں جو صحافت کو کاروبار اور تضحیک کا نعم البدل بنانے کا مؤجب رہے ہیں۔ بیشک آپ ان صحافیوں اور اینکرز میں تفریق کرتے رہیں، عوام الناس انہیں بکاؤ صحافیوں کے نام ہی سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ فرق بس اتنا کہ ایک فریق کے لیے بکاؤ ایک جتھہ تو دوسرے کے لیے دوسرا۔
مطیع اللہ جان اس ٹویٹ میں بیک وقت ججوں پر طنز بھی کر رہے ہیں اور انہی ججوں کو مشورہ بھی دے رہے ہیں۔ ممکن ہے اسد طور کے یوٹیوبرانہ عزائم پر ریاست اور عدلیہ کا ردعمل ذہن میں رکھتے ہوئے مشورہ دینے کا فیصلہ بھی کیا ہو، بہرحال بات کچھ جچی نہیں۔ غلط خبریں عمومی طور پر پوری دنیا اور خصوصی طور پر پاکستان، امریکہ سمیت ہر اس ریاست کا اہم ترین مسئلہ ہے جہاں سیاست دان کے نام پر فسطائیت کے علم بردار کو عوامی طاقت کا دوام دینے کی خاطر انہی غلط خبروں کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر سوشل میڈیا پر درست خبریں ایک حقیقت ہیں تو جھوٹی خبریں بدقسمتی سے اس سے بڑی حقیقت ہے۔ غلط خبروں کو غلط خبریں کہنے پر صحافت کی تقدیس کا برج العرب بنانا ویسا ہی ہوگا جیسا عسکری ادارے کے تقدس کو برج خلیفہ مان لینا۔ کوئی فرد، کوئی ادارہ اور کوئی عمل تنقید سے مبرا نہیں۔
مین سٹریم میڈیا پر پورا سچ نہ بولا جانا بیشک غلط عمل ہوگا لیکن مطیع اللہ جان شاید بھول رہے ہیں کہ اب سے سال ایک قبل تک مین سٹریم میڈیا پر صابر شاکر، عمران ریاض سمیت یہ پورا ٹولہ کیا خبروں کے نام پر کیا گند مچائے رکھتا تھا۔ روم ایک دن میں نہیں بنا تھا۔ پہلے تو شکر ادا کرنا چاہیے کہ کم از کم غلط، جھوٹی اور بے بنیاد صحافت کا وہ طوفان بدتمیزی کسی قدر کم تو ہوا جو باغیانِ آبپارہ نے عمران احمد خان نیازی کی پرستش میں مچا رکھا تھا۔ اب اگر مین سٹریم میڈیا کی نامکمل خبروں کے مقابلے میں “مکمل” خبر کے نام پر پھر سے جھوٹی خبروں اور کذاب صحافیوں یوٹیوبرز کو جگہ دینی ہے تو میرا خیال ہے ہمیں نامکمل خبروں پر ہی خوش رہنا پڑے گا۔ کیونکہ نامکمل خبر جیسی بھی ہو اس میں نامکمل پہلو پھر سمجھ آجاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں خبر کو عمران خان اور ان کے حامی یوٹیوبرز کے حق میں مروڑ کر پیش کرنا یکسر غلط ہے اور اس کا تدارک ضروری ہے۔
اصولا مطیع اللہ جان سمیت ہر اس شخص کو جو بے باک صحافت اور آزادی اظہار رائے کا ہمدرد ہے، کو ایک وسیع تر بحث کا آغاز کرنا چاہیے جس میں غلط خبریں پلانٹ کروانے کے عملی سدباب پر غور و فکر کرنی چاہیے اور ان کا حل تجویز کرنا چاہیے۔
جھوٹی خبر کی حوصلہ شکنی پر آزادی اظہار رائے کا شور مچاتے ہوئے مطیع اللہ جان یقینا غیر ارادی طور پر اسی صف میں کھڑے ہو رہے ہیں جہاں صدیق جان جیسے یوٹیوبرز اور عادل راجے جیسے ہیجان فروش آج ابھی اس لمحے کھڑے ہیں۔ میری خوش گمانی یہ ہے کہ مطیع اللہ جان شاید نیک نیتی سے یہاں کھڑے ہیں جہاں کذاب پوری بدنیتی اور بے غیرتی سے جھوٹ کی حوصلہ شکنی دیکھتے تڑپ رہے ہیں۔
سوشل یا مین سٹریم میڈیا کی جھوٹی خبروں کا دفاع اگر میڈیا کی “انفرادی حیثیت” کے راستے کرنا ہے تو پھر ہر فوجی اور پوری آئی ایس آئی کا بھی اسی انفرادی نظروں سے ذکر کرنا پڑے گا۔ میڈیا کی انفرادی حیثیت کو پورے میڈیا سے الگ رکھنا ہے تو پھر ریاست، سیاست، عدلیہ کی مخدوش حالت کا ذمہ دار فوج کو ٹھہراتے ہوئے انفرادی حیثیت کا ڈسکلیمر دینا پڑے گا۔ کیسی عجیب سی بات ہے کہ میڈیا کی انفرادی حیثیت میں جھوٹی خبروں کو لے کر مطیع اللہ جان خود بار بار عدلیہ، ریاستی ادارے اور حکومت کا کامل حیثیت میں ذکر کر رہے ہیں۔
مطیع اللہ جان آزادی اظہار رائے پر جو بات کر رہے ہیں وہ بلیک اینڈ وائٹ میں نظر آتی ہے، حالانکہ مجھے پورا یقین ہے کہ ان تمام معاملات کا گرے میں پڑے ہونے کا ادراک خود مطیع اللہ جان کو بھی ہے۔
معاملات کو بائنری میں دیکھنے سے الزام کے لیے سر تو مل سکتا ہے مگر جھوٹی صحافت جیسے سرایت شدہ کینسر کا حل نکلتا مشکل ہے۔
سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کو لے کر ضرور بات ہونی چاہیے، اعلی ترین اداروں کی جانب سے ہونی چاہیے اور ڈنکے کی چوٹ پر ہونی چاہیے۔ اگر blanket immunity حکومت، فوج یا عدلیہ کو نہیں دی جا سکتی تو صحافت کون سا کسی مقدس کتاب کا حصہ بن گئی؟